میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے
میں مطمئن ہوں
میں ہوں فقط روح
میں غم کی تمام منزلیں اتر کر
مزید غم کے تمام امکان رد کر چکا ہوں
مگر تمہاری نزع کے عالم میں ہوں ستادہ
میں ہنس رہا ہوں
میں بے حسی سے تمہاری روح سے بدن کا چھلکا اترتے دیکھوں
تو جان لوں کہ خدا کا وعدہ غلط نہیں تھا
ہر اک عمل کا حساب تم سے اسی جہاں میں وصول ہوگا
ہر اس عمل کا حساب جو تم
خدا کے نامِ گراں کے صدقے
زمیں پہ اسکی دوکاں سجائے کئے گئے ہو
اور دوکان ہی کیا
تمہیں تو خود کو خدا بنانا بھی عیب نا تھا
اور آج،
تمہارا بندہ جو بندگی میں تمہارا ہرگز کبھی بھی نا تھا
مسرتوں کے ہجومِ پرھول میں جھوم اٹھا ہے، لہک اٹھا ہے
کہ آج،
تمہارے یار و خدا خلیفہ،
تمہی پہ سب مل کے پل پڑے ہیں
تمہاری جاں کے قسیم ہیں آج
جو کل تہارے ہی نازنیں تھے
تمہاری آوارگی کے ضامن
تمہاری دہشت کے جو امیں تھے
وہ آج اگر اس ذبیحِ مرتد کو حصوں میں کرنے پہ ہی مصر ہیں
تو مجھے تمہاری کثیف جاں سے کوئی بھی حصہ وصول کرنا
عجب نہیں ہے
مگر تمھارا یہاں نہ ہونا ہی میرا حصہ ہے اس جدل میں
میں جانتا ہوں
کہ تم نہ ہوگے تو کوئی ظالم تمہاری مسند دبوچ لے گا
مگر میری جیت کو یہ بہت ہے
کہ ایک ظالم ایک اور ظالم کے ہاتھوں کم ہو
[جی ایچ کیو پر طالبان کے حملے کے روز لکھا گیا]
[فرخزاد علی]