Elite media in service of Sharmeen Obaid-Chinoy

by admin

A few days ago I came across an article written by Robert Fisk published in The Independent. The article was titled “If Alawites are turning against Assad then his fate is sealed”. Interestingly, there was nothing in the article to suggest that Alawites were indeed turning against Bashar Al Assad. The article was thus a fine example of the mixing of good journalism and bad editorialising.

For a similar example of yellow journalism, see heading in this article on Express Tribune, in which editorial bias has dominated the actual content of the article in a decontextual manner, in order to present an overall pro-Sharmeen version of the story.

http://tribune.com.pk/story/412465/saving-faces-rukhsana-gets-a-house-still-vows-action-against-obaid-chinoy/

Saving Face’s Rukhsana gets a house, still vows action against Obaid-Chinoy
By Web Desk
Published: July 24, 2012

MULTAN: Rukhsana, the acid attack survivor featured in Sharmeen Obaid-Chinoy’s Saving Face, said she has received a 3.5 marla house in Multan on Tuesday, part of an independent agreement with a non-governmental organisation which also works with the film’s director.
However, Rukhsana was adamant that she would press for action against the filmmaker for what she claims was an unfulfilled promise of gratifications for appearing in the Oscar award winning film.
Express News reported on Tuesday that the NGO Islamic Health Foundation, with a help of a donor, had arranged for a house for Rukhsana. The property had been accepted by the acid victim, confirmed IHF official General Major Khalilur Rehman.
Rukhsana had unleashed allegations against the filmmaker saying that she had promised her a house, plastic surgery and Rs300,000. Claiming the promise was unfulfilled, she had registered a case against Obaid-Chinoy.
The filmmaker denied the allegations, saying that the house was promised by the IHF through a donor, and initial offerings had been rejected. Offers of plastic surgery, extended to Rukhsana and the other acid victim featured in the film, had also been reportedly rejected.
After receiving the keys of the house, Rukhsana told the media that she will take legal action against the filmmaker and will get money from her to help acid victims like herself.

The NGO Islamic Health Foundation (IHF) has nothing to do with Sharmeen Obaid-Chinoy. The house was given to Rukhsana by IHF, not Sharmeen.

Similar dishonest report was published by BBC Urdu, which did not even bother to publish Rukhsana’s views:

آخر وہ بھی تو پاکستان کا ہی چہرہ ہے
شمائلہ جعفری
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
آخری وقت اشاعت: منگل 24 جولائ 2012 ,‭

شرمین عبید نے اپنی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’سیونگ فیس‘ سے پاکستان میں کئی چہروں کو تیزاب کے چھینٹوں سے بچانے کی کوشش کیا کی کہ انہیں خود کو الزامات سے بچانا مشکل ہوگیا۔
ان کے آسکر جیتنے سے پاکستان کا چہرہ تو دنیا بھر میں ایک نئے انداز میں ابھرا لیکن ہمیشہ کی طرح اس معاملے پر بھی ملک میں اتنی لے دے ہوئی کہ آسکر اعزاز کے بجائے عذاب بن گیا۔

کچہ حلقے شرمین پر پاکستان کا امیج عالمی سطح پر مجروح کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور اب توان پر فلم میں کام کرنے والی تیزاب سے متاثرہ خاتون رخسانہ بی بی سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا تنازع سامنے آ رہا ہے بلکہ اس تنارعے پر تو پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا بھی پیش کر دی گئی۔

تحریک پیش کرنے والے پنجاب اسمبلی میں یونیفکیشن بلاک کے رکن شیخ علاوالدین کا کہنا ہے کہ ان کی براہ راست تو رخسانہ بی بی سے بات نہیں ہوئی تاہم انہیں ’باوثوق‘ ذرائع سے معلومات ملی ہیں کہ شرمین نے رخسانہ بی بی سے کیےگئے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور انہیں طے کردہ معاوضہ ادا نہیں کیا۔

پاکستان کا نام بدنام کیا
” شرمین کی فلم سے پاکستان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہوا۔ دانستہ طور پر ایسے واقعات کو اچھالا جا رہا ہے اگر شرمین حقیقت میں ایسی خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں تو ملک میں ان کے لیے آواز اٹھاتیں”
شیخ علاوالدین

شیخ علاوالدین کا کہنا ہے کہ شرمین کی فلم سے پاکستان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہوا۔ دانستہ طور پر ایسے واقعات کو اچھالا جا رہا ہے اگر شرمین حقیقت میں ایسی خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں تو ملک میں ان کے لیے آواز اٹھاتیں۔
پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی کی ساجدہ میر نے شیخ علاوالدین کی تحریک التوا کی مخالفت کی اور شرمین عبید کا دفاع کیا۔
ساجدہ میر کے مطابق شرمین نے اپنی فلم کے ذریعے ایک سماجی برائی کی عکاسی کی اور پاکستان کا وقار بلند کیا۔

رخسانہ بی بی پر تیزاب پھینکنے والے اس کے شوہر کو سزا دینے کی بات تو کوئی نہیں کر رہا شرمین پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تحریک التوا پر بحث کروانے کی بجائے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے اسے ویمن ڈویلپمنٹ کمیٹی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔

شرمین پر الزامات
“رخسانہ بی بی پر تیزاب پھینکنے والے اس کے شوہر کو سزا دینے کی بات تو کوئی نہیں کر رہا شرمین پر الزامات لگائے جا رہے ہیں”
ساجدہ میر

رانا ثنااللہ کی دور اندیشی کا تو ویسے ہی جواب نہیں، پنجاب اسمبلی میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے کام کرنے کمیٹی چیئرپرسن نہ ہونے کے باعث کافی عرصے سے فعال ہی نہیں۔
سیکرٹری پنجاب اسمبلی مقصود ملک کا کہنا ہے کہ چیئرپرسن کے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے اور حکومت جب چاہے کمیٹی کا اجلاس بلا سکتی ہے۔
’کمیٹی جب چاہے شرمین عبید کو طلب کر کے ان سے وضاحت بھی لے سکتی ہے لیکن معاملے کی باضابطہ تحقیقات کرنے اور شرمین کے پیش نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی کے پاس ان کے خلاف کاروائی کرنے کے کوئی واضح اختیارات موجود نہیں۔‘

پنجاب اسمبلی کی کمیٹی میں شرمین کی پیشی ہو پائے گی یا نہیں اس سے قطع نظر یہ بات تو طے ہے کہ سازش کا مفروضہ اس حد تک ہماری رگوں میں سرایت کر چکا ہے اگر بین الاقوامی سطح پر ہمیں کوئی اعزاز مل بھی جائے تو ہم خود ہی اس کی نفی کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہمیں ’سیونگ فیس‘ میں رخسانہ بی بی کا جھلسا ہوا چہرہ تو یاد رہا لیکن شرمین کا دمکتا ہوا چہرہ بھول گئے۔ آخر وہ بھی تو پاکستان کا ہی چہرہ ہے

http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2012/07/120724_sharmeen_obaid_face_zz.shtml

For a detailed background of this issue, refer to some articles published on LUBP:

http://criticalppp.com/archives/tag/sharmeen-obaid-chinoy

One Comment to “Elite media in service of Sharmeen Obaid-Chinoy”

  1. آپ کی ویب سائٹ بہت اچھی ہیں اور آپ اچھی چیزیں بھی لکھتے ہیں۔ ایسے ہی لکھتے رہیں اور خوش رہیں۔

Leave a comment